ویڈیو: آنسو ساز گوگل ‘ری یونین’ اشتہار نے بھارت اور پاکستان بھر میں دل گرما دئیے

حال ہی میں گوگل بھارت کی طرف سے مختصر اشتہارات کی ایک سیریز کا آغاز ہوا جس میں دکھایا گیا کہ کیسے ایک سرچ انجن دلوں کے مابین پل کا کام کرتا ہے جو کہ انسان کی بنائی ہوئی رکاوٹوں اور حد بندیوں سے الگ ہو گئے تھے۔ انٹرنیٹ پر بار ڈر کے دونوں جانب یعنی پاکستان اور بھارت میں یہ اشتہار وبا کی طرح پھیل گیا۔

13 نومبر 2013 کو جاری کیا گیا ‘دی گوگل سرچ: ری یونین اشتہار منجانب گوگل بھارت‘ نے خاصہ جذباتی اور دلفریب اثر پیدا کیا۔ اس سلسلہ وار اشتہار کے پانچ حصے ہیں جیسے کہ ‘سونف'، ‘کرکٹ'، ‘انار کلی'، اور ‘بغیر چینی کے'، لیکن جو اشتہار سب سے زیادہ دیکھا گیا وہ ‘ری یونین’ یعنی ملاپ کے نام سے ہے جو کہ اب تک 15 لاکھ سے بھی زائد بار دیکھا جا چکا ہے۔

ساڑھے تین منٹ طویل یہ ‘ملاپ’ اشتہار دوستی، بچپن کی یادیں، علیحدگی اور ایک حسین ماضی سے دوبارہ جڑنے کے بارے میں ہے۔ یہ اشتہار جو یوٹیوب پر انگریزی ذیلی عنوان کے ساتھ دستیاب ہے میں دکھایا گبا ہے کہ بھارتی پنجاب کا شہری اپنی پوتی سمن کو اپنے بچپن جو کہ لاہور میں گزرا کے واقعات بڑے شوق سے سناتا ہے۔  وہ اپنے دوست یوسف کا ذکر کرتا ہے اور اس دوست کے والد کی مٹھائی کی دکان کا بھی جو کہ پرانے لاہور میں واقع تھی، اور بتاتا ہے کہ کیسے 1947 میں تقسیم کے وقت دونوں دوست علیحدہ ہو گئے۔ سمن پھر اپنے دادا کے بچپن کے دوست اور انکے بارے میں دیگر معلومات گوگل پر تلاش کر کے ان سے رابطہ کرتی ہے اور ایسے دو دوست دوبارہ مل جاتے ہیں۔

ری یونین اشتہار تقسیم کے حساس مسئلہ کو چھوتا ہے کہ کیسے کئی دوست اور خاندان الگ ہو گئے۔ 1947 میں بھارت سے اپنی روانگی سے قبل برطانوی حکومت نے انڈیا کو مملکت پاکستان اور متحدہ بھارت میں تقسیم کر دیا۔ اس تقسیم کی بنیاد مذہب پر تھی تاکہ بڑھتی ہوئی ہندو مسلم کشیدگی کو روکا جا سکے۔ تاہم تقسیم نے بڑی حد تک دونوں اقوام کو برے حالات میں چھوڑ دیا۔  بڑے پیمانے پر لوگوں کی بڑی تعداد کو سرحد پار نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور پرتشدد فسادات نے لوگوں کی نفسیات پر گہرے زخم چھوڑے۔ آج تک اس تقسیم کے چھوڑے ہوئے زخم مکمل طور پر بھر نہیں سکے۔ اور دونوں ممالک کے تعلقات اکثر کشیدگی کا شکار رہتے ہیں جیسے کہ دونوں ممالک کے مابین جنگیں، سرحدی تنازعات، عسکری سوچ اور مسئلہ کشمیر۔

تقسیم نے خاندانوں اور دوستوں کو ایک دوسرے سے بالکل الگ کر دیا اور ایسے لاکھوں کی تعداد میں سرحد کے دونوں جانب موجود ہیں جو آج تک ایک دوسرے کی تلاش میں ہیں۔ دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے، لیکن آج بھی یہ رشتہ خاصہ نازک ہے اور پاکستانی اور بھارتی شہریوں کا سخت ریزا پالیسی کی وجہ سے سرحد پار سفر کرنا بے حد مشکل ہے۔

اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے، اس اشتہار میں یہ خاصہ دلچسپ پہلو ہے کہ کیسے یہ جذباتی نبض کو چھوتا ہے. دونوں ممالک کے بلاگرز نے اس کاوش پر مثبت رد عمل کا اظہار کیا۔

بینا سرور جو کہ صحافی و بلاگر، انسانی حقوق کی کارکن اور امن کی آشا مہم کی روح رواں میں سے ایک ہیں نے اس اشتہار کو اپنی ‘ملنے دو’ مہم کا حصہ بناتے ہوئے کہا:

اگر یہ آپ پر اثر نہیں کرتا تو یقین کریں کہ آپ کا دل پتھر کا ہے۔ اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی شہریوں کا ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کرنے کے لئے ویزا حاصل کرنا ناممکنات کے قریب ہے تو ‘ملنے دو’ کی ویب سائٹ پر جائیں اور پاک بھارت ویزا پابندیوں کے حوالے سے مہم پر اپنے تاثرات کا ظہار کریں۔ سوچ اور آواز یقینا بہت معنی رکھتی ہے۔

 

بلاگر مہرین کسانہ نے اپنے بلاگ پر لکھا:

پاکیستان میں میرے سمیت بہت سے خاندان ایسے ہیں کہ جن کے بھارت میں کوئی بھی رشتہ دار نہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کے بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کے عزیز سرحد کے دوسری جانب موجود ہیں۔  غالباً یہ اس موضوع کے حوالے سے ایک بہترین ویڈیو ہے۔۔۔ سچ کہوں تو میری آنکھیں بھر آئی ہیں۔

پاکستان سے عمر عالم نے یوٹیوب پر کچھ یوں تبصرہ کیا:

گوگل کی جانب سے شاندار کاوش۔ پاکستان سے میرا سلام قبول کریں۔

پاکستانی اور بھارتی ٹویٹر استعمال کنندگان کی جانب سے بھی خاصہ دلچسپ رد عمل دیکھنے کو ملا کہ کیسے یہ اشتہار انکے دل کو چھو گیا۔

پاکستانی مصنف اور پبلشر، مشرف اے فاروقی کا کہنا تھا کہ:

گوگل اس کی وجہ سے جنت میں جائے گا

اینتھونی پرمل جو کہ ٹویٹر پر ٹونی خان کے نام سے جانے جاتے ہیں کا کہنا تھا:

میں نے ابھی گوگل بھارت کا اشتہار چوتھی بار دیکھا ہے، اور اب بھی اسکا مجھ پر پہلے سا ہی اثر ہے کہ آنکھوں میں آنسو آنے لگے ہیں۔

 بلاگر مونا خان نے ٹویٹ کیا کہ کیسے اس اشتہار نے انکے والد کی پرانی یادوں کو تازہ کر دیا اور کیسے وہ اب اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ کرنے کو بے چین ہیں۔ 

میں نے اپنے والد کو یہ ویڈیو دکھائی اور اب وہ چاہتے ہیں کہ میں گوگل ہر انکے سکول کے ان دوستوں کو تلاش کروں جو کہ بھارت میں رہ گئے تاکہ وہ ان سے دوبارہ مل سکیں۔

کلکتہ سے صحافی اور فوٹو گرافر سکرانتو مکھرجی نے اس اشتہار میں دکھائی گئی دکان کی اصل تصویر شیئر کی:

تو یہ ہے اصل فضل سویٹس لاہور میں جسکا ذکر گوگل کے اشتہار میں ہوا (بشکریہ شیراز حسن)

بھارتی صحافی تریپتی لہری کا ٹویٹ تھا:

مجھے یقین ہے کہ دہلی میں مقیم ہجرت کر کے آنے والوں نے اس تقسیم اور ملاپ کے گوگل اشتہار پر آہ بھری ہو گی اور شاید کچھ آنسو بھی بہائے ہوں۔

بھارت میں مقیم ایک پیشہ ور فوٹوگرافر کا کہنا تھا کہ:

تقسیم کے زیر عتاب آئی کئی روحوں کو مرہم کی ضرورت ہے! گوگل بھارت کا اشتہار – ملاپ

بھارتی شیف بلاگر روپا گلاٹی نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا:

گوگل کا جذبات بھرا اشتہار۔۔۔ میرے والد کی نسل سے بہت سے لوگوں کے دلوں میں گونج اٹھے گا کہ جو 1947 کی تقسیم سے گزر چکے ہیں۔

کچھ لوگوں نے اشتہار پر تنقید بھی کی۔ جیسے کہ بھارت سے کارپوریٹ مواصلات پیشہ ور شوانی موہن نے کہا:

مجھے اشتہار اچھا لگا لیکن ایسی چیزیں نمک کی بڑی چٹکی (منہ کا بگڑا زائفہ درست کرنے کو) کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہیں۔

نیٹ کی دنیا سے وابستہ کچھ افراد کا کہنا تھا کہ گوگل کے اشتہار کا مرکزی خیال اور کہانی “ریسپیکٹ” (احترام) نامی پاکستانی مختصر فلم جو اگست 2012 میں جاری کی گئی تھی سے ماخوذ ہے یا چرایا گیا ہے۔ یہ فلم 2012 میں پاک سر زمین پروڈکشنز کی جانب سے جاری کی گئی تھی کہ جس میں دکھایا یا تھا پاکستان اور بھارت کے تناظر میں دوستی اور مواصلات کی طاقت کتنا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

طہ کرمانی جنہوں نے اس فلم کی ہدایتکاری کی تھی کا کہنا تھا کہ:

گوگل بھارت کا ملاپ اشتہار مکمل طور پر پاکستانی مختصر فلم احترام سے ماخوذ ہے۔

مذکورہ بالا مختصر فلم کے یوٹیوب ویڈیو ذیل میں دیکھی جا سکتی ہے، جس میں ایک نوجوان 1947 ء کی تقسیم میں الگ ہوئے اپنے دادا کے دوستوں سے انکا رابطہ بحال کرنے میں ٹیکنالوجی سے مدد لیتا ہے۔

Thumbnail image: Screenshot taken from the YouTube video, Google Search:Reunion

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.