تصاویر: ہیومنز آف ساؤتھ ایشیا (جنوبی ایشیا کے انسان)۔

2010 میں فوٹو گرافر برانڈن سٹانٹن نے نیویارک کی گلیوں میں اجنبیوں کی تصاویر کھینچنا شروع کیں۔ ان سے چند سوالات کرتے اور پھر ان تصاویر اور ان سے جڑی کہانیوں کو انٹرنیٹ پر شائع کر دیا جاتا۔ تین سال کے بعد انہوں نے فیس بک پر ہیومنز آف نیویارک (نیویارک کے لوگ) نامی پیج کا آغاز کیا۔ جوں جوں یہ منصوبہ آگے بڑھا اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا، پیشہ ور اور شوقیہ فوٹوگرافروں نے دنیا بھر میں اس خیال کی نقل میں بلاگ اور فیس بک پیج بنائے جہاں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کہانیاں اور تصاویر شائع کی جاتی ہیں۔

اس بات پر نظر ڈالتے ہیں کہ ہیومنز آف نیویارک نے کیسے جنوبی ایشیائی ممالک کے فوٹوگرافروں کوں متاثر کیا۔

بھارت

Screenshot of the Humans of India Facebook Page

ہیومنز آف انڈیا کے فیس بک پیج کا اسکرین شاٹ

یکم جون 2012 کو بننے والے ییومنز آف انڈیا فیس بک پیج نے اب تک 108،700 سے اوپر پیروکار اکٹھے کر رکھے ہیں اور 17،800 سے زائد لوگوں نے اس پیج کو شیئر کیا۔ اس پیج کی سی-ای-او میگھا ماجمدر نے میش ایبل کو دیئے ایک انٹرویو میں کہا:

There's this word that I fell in love with a while back: sonder. It's the realization that every random passerby is living a life that is as vivid and intricate as your own, complete with their own thoughts, feelings and emotions. And to them, you're just a passing figure on the street, too. Sonder seized my awareness –- people were no longer just strangers

ایک لفظ ہے سونڈر، جس سے مجھے کچھ عرصہ قبل انس ہوگیا۔ یہ احساس ہے کہ پاس سے گزرنے والا ہر راہگیر ایک اپنے آپ میں زندگی ہے جو کہ اتنی ہی وشد اور پیچیدہ ہے کہ جتنی آپ کی اپنی۔ یہ بھی ان کے اپنے خیالات، احساسات اور جذبات سے بھرپور ہوتی ہے۔ اور ان کے لئے ہم بھی پاس سے گزرنے والی ایک تقریبا بے جان شے ہیں۔ اس سونڈر نے مجھ پر یہ اثر کیا کہ اب لوگ میرے لئے محض اجنبی نہیں رہے۔

A decoration of the body, an enhancement of the soul ॐ. Image by Humans of India. Used with permission.

جسم کی سجاوٹ اور روح کی بہتری کا سامان (تصویر بشکریہ ہیومنز آف انڈیا)

"I'm pretty sure that love and light have something to do with each other. That's why Diwali's cool. Lots of love in the air." Image by Humans of India. Used with permission

مجھے یقین ہے روشنی اور محبت کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اسی لئے دیوالی ایک شاندار تہوار ہے، یہ ہوا میں محبت بھر دیتا ہے (تصویر بشکریہ ہیومنز آف انڈیا)

اسی سے ملتے جلتے اور اقدامات بھی ہوئے جیسے کہ ہویمنز آف بینگلور، ہیومنز آف ممبئی، ہیومنز آف دہلی (ایک، دوہیومنز آف حیدرآباد، اور ہیومنز آف لکھنؤ۔ ان صفحات پر زیادہ تر مواد کراؤڈ سورسڈ یعنی ان پیجز کے عام ممبران کی جانب سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔

Screenshot of Humans of Bangalore page

ہیومنز آف بینگلور کے فیس بک پیج کا اسکرین شاٹ

بنگلہ دیش

ہیومنز آف بنگلہ دیش بھی ایک کراؤڈ سورسڈ منصوبہ ہے جس نے 19 جولائی 2012 سے لیکر اب تک 2،050 پیروکار اکٹھے کئے۔

Screenshot of Humans of Bangladesh blog

ہیومنز آف بنگلہ دیش بلاگ کا اسکرین شاٹ

29 نومبر 2012 کو بنگلہ دیشی فوٹو گرافروں نے ہیومنز آف بنگلہ دیش کے نام سے ایک منصوبے کا آغاز کیا اور اب تک 4،700 سے زائد افراد اسے کے پیروکار ہیں۔

Screenshot of Humans of Bangladesh by Bangladeshi photographers.

بنگلہ دیشی فوٹوگرافروں کا تیار کردہ ہیومنز آف بنگلہ دیش پیج کا اسکرین شاٹ

اسی قسم کا ایک پیج ہیومنز آف ڈھاکہ کے نام سے بھی موجود ہے۔

مالدیپ

ہیومنز آف مالدیپ کے فیس بک پیج کا آغاز 10 اگست 2013 کو ہوا اور اب تکے اس کے پیروکاروں کی تعداد 2،300 سے زائد ہے۔

Screenshot from Humans of Maldives Facebook page

ہیومنز آف مالدیپ کے فیس بک پیج کا اسکرین شاٹ

بھوٹان

ہیومنز آف نیویارک سے متاثر ہیومنز آف بھوٹان پیج کا آغاز ستمبر 2012 کو ہو اور تب سے لیکر اب تک اس میں تصاویر کے مجموعہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

Screenshot of Humans of Bhutan webpage

ہیومنز آف بھوٹان کے پیج کا اسکرین شاٹ

نیپال

نیپال کی ثقافت، مزہبی و نسلی تنوع کا پرچار کرنے والا ہیومنز آف نیپال کا یہ پیج 7 جون 2013 کو شروع ہوا۔

Screenshot from Humans of Nepal

ہیومنز آف نیپال کا اسکرین شاٹ

پاکستان

ہیومنز آف پاکستان پیج کا آغاز جولائی 2012 میں ہوا، اور اس سے ملتا جلتا ایک اور پیج ہیومنز آف پاکستان پیج 22 اگست 2013 کو شروع ہوا۔ ان صفحات کو چند سو افراد ہی فالو کرتے ہیں۔ 

screenshot of the Humans of Pakistan Facebook page

ہیومنز آف پاکستان کے فیس بک پیج کا اسکرین شاٹ

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شہروں کے صفحات زیادہ مقبول ہیں جیسے کہ ہیومنز آف اسلام آباد اینڈ راولپنڈی (تین ہزار سے زائد پیروکار)، ہیومنز آف کشمیر (بارہ سو سے زائد پیروکار)، ہیومنز آف سندھ (ساڑھے تین ہزار سے زائد پیروکار)، ہیومنز آف لاہور (سات ہزار سے زائد پیروکار)، اور ہیومنز آف کراچی (ایک لاکھ کے قریب پیروکار)۔

Letter by Sakina. Image courtesy Humans of New York and Humans of Karachi

سکینہ گھی والا – تصویر: بشکریہ ہیومنز آف نیویارک اور ہیومنز آف کراچی۔

سکینہ گھی والا نے ہیومنز آف نیویارک کے بانی برانڈن سٹانٹن کے نام ایک خط لکھا، جو کہ ہیومنز آف نیویارک کے پیج پر بھی شائع ہوا۔ اس خط میں بتایا گیا ہے کہ کیسے اس منصوبہ نے انہیں متاثر کیا:

Dear Brandon,

My HONY book arrived in Pakistan today. Though it was five months late, it was my favorite birthday present of the year.

In a country where people fight for survival everyday, I'm one of the fortunate few whose biggest worry right now is getting through medical school. In my part of the world, people like me, no matter how much we try to deny it, live in a bubble. And our problems are called “first world problems.” Maybe it will surprise people to see a “Pakistani” so in touch with the Western World. To see something other than the hatred that the world seems to notice radiating from here. But in my little bubble here in Pakistan, I find inspiration in the stories shared on Humans of New York, because they depict more than what the common man perceives. Yes, Pakistan as a nation suffers more than the rest, we do have a billion and one problems, but HONY reminds me that above everything else we are individuals. That just how every Pakistani is not the same, neither is every American. It reminds me to love and respect everybody– something many people here tend to have forgotten. The pictures and stories on HONY almost always make me feel like anything is possible.

Thank you,
Sakina

محترم برانڈن،

میری ہیومنز آف نیویارک کتاب آج پاکستان پہنچ گئی۔ ویسے تو یہ پانچ ماہ کی تاخیر کے بعد ملی لیکن یہ اس سالگرہ کا پہترین تحفہ ہے۔ 

ایک ایسے ملک میں کہ جہاں لوگ اپنی بقا کے لئے ہر روز جدوجہد کرتے ہیں، وہیں میں ان چند خوش نصیبوں میں سے ہوں جن کی سب سے بڑی فکر ایک میڈیکل اسکول میں داخلہ حاصل کرنا ہے۔ جس خطے سے میرا تعلق ہے وہاں ہم اس بات سے جتنا بھی انکار کریں مجھ جیسے کئی لوگ ایک بلبلے میں زندہ ہیں۔ اور ہمارے مسائل ‘فرسٹ ورلڈ مسائل’ کہلاتے ہیں۔ شائد یہ بات دوسروں کے لئے حیران کن ہو کہ کیسے ایک ‘پاکستانی’ کو مغربی دنیا سے انس ہے۔ جو کہ اس نفرت کے بالکل متضاد ہے جو دنیا کے خیال میں پاکسان میں پائی جاتی ہے۔ لیکن یہاں پاکستان میں ایک چھوٹے سے بلبلے میں مجھے ہیومنز آف نیویارک میں شائع ہونے والی کہانیاں متاثر کرتی ہیں، یہ اس لئے کہ یہ تصاویر اور کہانیاں ان باتوں کو بیان کرتی ہیں جو ایک عام انسان محسوس کرتا ہے۔ جی ہاں، ایک قوم کے طور پر باقی دنیا کے مقابلے ہم کئی مشکلات سے دوچار ہیں، لیکن ہیومنز آف نیویارک ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ان تمام مسائل کے بعد بھی ہم انسان ہیں ایک وجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام پاکستانی ایک سے نہیں، اور نہ ہی تمام امریکی۔ یہ مجھے احساس دلاتا ہے کہ مجھے ہر کسی کا احترام اور ان سے محبت کرنی چاہئے، یہ ایک ایسی بات ہے جو لوگ آج کل بھول چکے ہیں۔ ہیومنز آف نیویارک کی تصاویر اور کہانیاں مجھے تقریبا ہمیشہ یہ احساس دلاتی ہیں کہ سب کچھ ممکن ہے۔

شکریہ،

سکینہ

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.