ایتھوپیا – عید الفطر کے احتجاج پر مسلمانوں کی ایتھوپیا میں گرفتاریاں اور تشدد

جمعرات 8 اکست کو عید الفطر کے موقع پر مسلامانوں کے ساتھ ایتھوپیا ناروا سلوک کے خلاف ہونے والے احتجاج کے پرتشدد نتائج نکلے۔ سینکڑوں مظاہرین جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے تشدد کی زد میں آئے۔ مظاہرین پر آنسو گیس سے حملہ کیا گیا اسکے ساتھ پولیس کی جانب سے مار پیٹ کے واقعات بھی سامنے آئے اور  کئی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔

پچھلے ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ کے دوران ایتھوپیا میں رہنے والے مسلمانوں کا حکومت کی جانب سے مذہبی امور میں مبینہ مداخلت کے خلاف آن لائن اور آف لائن احتجاج جاری پے۔

اکتوبر 2012 میں ہونے والے اسلامک کونسل کے انتخابات حکومت مخالف مسائل میں سے ایک ہے۔ حکومت پر الزام ہے کہ اس نے انتخابات کے عمل میں مداخلت کی اور ان امیدواروں کی فتح یقینی بنائی جن کے حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔ حکومت پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ یہ اسلام کے ایک انتہائی لبرل قسم جسے الابش کا نام دیا گیا ہے کی بے جا حمایت کر رہی ہے اور اسے فروغ دے رہی ہے۔

Ethiopian Muslims protesting the Ethiopian Government.

Ethiopian Muslims protesting early this year during the Africa Cup of Nations in South Africa. One of the t-shirts reads, “Stop Abhashism in Ethiopia.” Photo source: the Awolia School Support Page Facebook Pa

مسلم سائبر کارکنان اپنے پیغامات کی ترویج اور اشاعت کے لئے مختلف فیسبک صفحات کا استعمال کر رہے ہیں۔ جن میں “ڈمٹاساچن یسیما” (ہماری آواز کو سنا جائے) اور “ایتھوپئن مسلم” قابل ذکر ہیں۔

گزشتہ سال، ایتھوپیا کے عیسائیوں نے اپنے ساتھی شہریوں کی حمایت کا اعلان مختلف پیغامات سے کیا۔  یہ پیغامات ایتھوپیا کی ڈیجیٹل سپیس میں کافی مقبول ہوئے۔ بہت سے ایتھوپیا کے عیسائی شہریوں نے جولائی 2012 میں حکومتی مداخلت کے خلاف ایتھوپیا کے مسلمان شہریوں سے اتحاد کا اظہار اپنے فیسبک کے سٹیٹس تبدیل کر کے کیا۔

عید پر مظاہروں پر کیے گئے کریک ڈاؤن کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت کے نام ایک بیان جاری کیا ہے کہ مسلامانوں کے خلاف جبر کو روکا جائے۔ بیان میں گزشتہ ہفتے ہونے والی مبینہ لا تعداد ہلاکتوں کا نوٹس لیا گیا ہے جو صوبہ ارومیا کے شہر کوفیلے میں پیش آئیں۔

عید کی نماز کے بعد پولیس کے مظالم اور گرفتاریوں کی اطلاعات ٹویٹر پر رجحان ساز موضوعات “عید ڈیمانسٹریشن” اور “ایتھیو مسلمز” کے زمرے میں دی جاتی رہیں۔

 

 

 

ماحلت  امن پسند مسلمانوں کے ساتھ اس سلوک پر دکھی تھے- انہوں نے کہا “یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ کیسے امن پسند مسلمانوں کے ساتھ مجرموں کا سا سلوک کیا جا رہا ہے”

 

 

 

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن سولی (@Soliyee) نے ایک قیدی خاتون کو دیکھا کہ جسکے ساتھ ایک نوزایدہ بچہ بھی تھا۔ سولی نے لکھا کہ “وہ خاتون جس کا میں نے کچھ دیر پہلے ذکر کیا تھا کہ اپنے نوزائیدہ بچے کے ساھ مظاہرے میں شریک تھی، وہ بھی اب گرفتار شدگان میں شامل ہے۔”—Soli ሶሊ (@Soliyee) August 8, 2013 

 

 

 

 

اورومو نیٹ ورک  (@OromoRT) نامی ایک آن لائن نیٹ ورک نے حیرت کا اظہار کیا کہ کوئی کس طرح حکمران  ایتھوپیا پیپلز ریوولوشنری ڈیموکریٹک فرنٹ پر اعتماد کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ای پی آر ڈی ایف سے کس طرح یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ بڑی مانگیں پوری کر سکے گی جبکہ یہ ایتھوپیئن مسلمانوں کی سادہ سی مانگ پوری نہیں کر پا رہی۔”— Oromo Network (@OromoRT) August 8, 2013

 

 

 

سٹننگ حابیشہ (@stunningHabesha) نے چند تصاویر ارسال کیں جن میں پولیس کا تشدد ظاہر تھا۔

 

 

افریقہ ڈیسک آف دی کمیٹی برائے تحفظِ صحافت و صحافی (@africamedia_CPJ) نے الزام عاید کیا کہ عید پر ہونے والےکرک ڈاؤن کی خبروں کو سنسر کیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ “سرکاری ٹی وی مبینہ طور پر عید سروسز کو سنسر کر رہا ہے تاکہ #EthioMuslims اور #EidDemonstration  کی آواز کو بند کیا جا سکے۔”— africa @pressfreedom (@africamedia_CPJ) August 8, 2013

 

 

 

مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو دیکھتے ہوئے اتناف برہانے ( @atnemac) کا کہنا تھا کہ شاید ایتھوپیا میں مسلمان ہونا شائد کوئی جرم ہے، “آج اپنی آنکوں سے یہ سب دیکھ یقین ہو چلا ہے کہ مسلمان ہونا اپنے آپ میں ایک جرم ہے۔ خدا ہمارے ایتھوپیا کے مسلمان بہنوں اور بھائیوں کی مدد فرمائے۔”— Atnaf Brhane (@atnemac) August 8, 2013

 

 

 

سولی (@Soliyee) اور انکی دوست فنتیش (@faantish) اپنے غیر مسلم پہناوے کی وجہ سے خوش قسمت رہیں۔

 

سولی نے لکھا ” میں اور @faantish فرار ہونے میں کامیاب رہے کیونکہ ہم نے پتلون پہن رکھی تھی اور سر بھی ڈھانپا ہوا نہیں تھا لہزا ہمیں جانے دیا گیا۔”— Soli ሶሊ (@Soliyee) August 8, 2013S

 

ایتھوپیا میں اور دنیا بھر میں ٹویٹر صارفین کی طرف سے بڑے پیمانے پر مذمت کے باوجود، کچھ لوگ کریک ڈاؤن کی حمایت کر رہے تھے۔

 

ایتھیوزاگول (@EthioZagol) کا کہنا تھا کہ “ایتھیو مسلمز جیسی مزہبی آزادی کے نام پر اسلامی شدت پسندی کے پھیلاؤ کی مزمت کرتا ہوں۔”EthioZagol (@EthioZagol) August 8, 2011


ایتھوپیا کے انسانی حقوق کے کارکن اور مصنف کفلو حسین (@HussainKiflu) نے “انتہا پسندی” الزام کے جواب میں کہا

 

“چلو مان لیتے ہیں کہ ایتھوپیا میں مزہبی شدت پسند موجود ہیں۔ ان سے کیسے نبٹا جائے؟ کیا اندھا دھند قتل جیسے انتہائی سخت اقدامات درست طریقہ ہے؟— Kiflu Hussain (@HussainKiflu) August 8, 2013

 

فن لینڈ  میں مقیم  ایک ایتھوپیا کے طالبعلم ہینوک (@henoksheger) نے مسلمانوں کو قانون کا احترام کرنے کا مشورہ دیا،

“ایسے عوامی مظاہروں کے لئے قانونی طور پر باقائدہ لائسنس درکار ہوتا ہے۔”— Henok (@henoksheger) August 8, 2013

 

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.