یہ بلاگ ہم سب کی ایک مشترقہ کوشش ہے جس سے ہم رابطے میں رہیں گے اور اپنے پڑوسی کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے. ایک ساتھ مل کر ہم آپس کی سارے شگافوں کو مٹائیں گے اور ان دیواروں کی مرمت کریں گے جو ہمیں ایک دوسرے سے دور رکھتی ہیں۔
آے- آر -وائے (ARY) نیوز چینل کی سفارتی نامہ نگار بینش محسن اس پروگرام کے حوالے سے اپنی توقعات کا اظہار کرتی ہیں.
پروگرام کے پہلے ہفتے میں دقیانوسی خیالات کو ختم کرنے کے بارے میں گفتگو ہوئی اور بہت کرامت ثابت ہوئی۔ ایکسپرس ٹربیون سے عائشہ حسن اپنے خیالات اس طرح بیان کرتی ہیں:
دونوں ملکوں کے چاروں کونوں سے تعلق رکھنے والے ہم صحافی بہت مثبت تاثرات، نہ بھولائی جانے والی یادیں اور سب سے اہم: نئے دوست، لیکر اپنے گھروں کو لوٹے ہیں. ہر کسی کے پاس ایک ذاتی کہانی تھی، زندگی کے انوکھے تجربات اور مَتنُوع وضاحتیں اور امیدیں، مگر کچھ باتیں اپنا اثر ہم پر ضرور چھوڑ گیئں۔
افغان صحافی فیصل مونزیجر نے اپنا تحربہ بتایا. وہ اپنے پڑوسی ملک کے بارے میں تحفظات کے بارے بتاتے ہوئے کہتے ہیں:
میرے افغانی بھائی لمبے ہوائی سفر کی وجہ سے تھک کر آرام کرنے گئے. مگر میں اپنے پاکستانی دوستوں سے ملنے چلا گیا. انہوں نے مجھے اپنے ساتھ ٹریکنگ (کوہ چڑھائی) کی دعوت دی. پہلے تو مجھے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی، مگر جب میں نے ان کا جوش اور دوستانہ رویہ دیکھا تو مجھے اپنے بچپن کے اسکول کے دوستوں کی یاد آگئی اور میں ان کی دعوت فوراً قبول کرلی۔
ایک اور مضمون “ہمارے پاس الزام لگانے کے لئے کوئی نہیں” میں فیصل مونزیجر اپنے اور افغانی صحافیوں میں پائی جانے والے مسائل کے بارے میں لکھتے ہیں:
میں نے یہ جان لیا ہے کے پاکستان مسئلہ نہیں ہے. ہمارا اصل مسئلہ اندرونی بحران ہے – نسلی مسائل ہیں. جب میں ایک بچہ تھا، تب مجھے بتایا گیا کے اہلِ تشیع گندے لوگ ہوتے ہیں. دوست بنانا تو دور کی بات ہے, مجھے ان کے گھروں میں جانے سے، انکا کھانا کھانے اور یہاں تک کہ انکا پانی پینے سے بھی روکا گیا.
شرکاء نے مل کر دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے بارے میں پائی جانے والی غلط معلومات پر تحقیق کی۔
ایک رپورٹ میں صحافیوں نے یہ نتیجہ نکالا:
افغانستان اور پاکستان میں صحافی چیلنجز کا سامنا کرتے رہے ہیں. اس کا حل صرف یہی ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں معلومات کا تبادلہ کریں اور ٹی وی چینلز کی نشریات سرحدوں سے آزاد ہو۔
انہوں نے ایسی کہانیوں کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی جو کے دونوں ملکوں کے عوام کو باہمی تعاون اور تجارت سے فائدہ دے سکیں. ایک فیلو نے یہ نتیجہ بھِ اخذ کیا کہ کابل پاکستانیوں کا نیا دبئی ہے:
شیر بادشاہ کی نوکری نے اسکے بھائی سردار بادشاہ کو بھی افغانستان آنے کا موقع دیا. اب وہ ایک باورچی ہے جو ٥٠٠ ڈالرز تنخواہ لیتا ہے.
عائشہ حسن کابل میں خواتین پارلیمنٹ کی ممبران، سوشل ایکٹوسٹ، اور سفیروں کو دیکھ کر مسحور تھیں. وہ لکھتی ہیں:
پرانے افغان روایتوں کو توڑنا کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو، افغان خواتین آہستہ ہی سہی، اپنی موجودگی کا احساس سیاسی حلقے میں دلا رہی ہیں. اس کی ایک علامت ہائی پیس کونسل میں خواتین کی شمولیت ہے جس پر طالبان نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس کونسل کا کام طالبان کے ساتھ امن کروانا ہے۔
میں نے اس بلاگ میں لکھا:
وہ اپنی نئی سمجھ اور ادراک کے ساتھ باقی دنیا کو بھی افغان-پاک تعلقات کے بارے میں بتا سکیں گے. یہ لوگ اپنے پڑوسیوں کے بارے میں سالوں پرانی حکایتوں کو اپنے ذاتی واقعات کے ذریعے چیلنج کرنے کے لئے تیار ہیں- ایسے واقعات جن کو عوامی حلقوں میں عام نہیں ہیں. میں یہ لکھتے ہوئے بہت خوش ہوں کہ یہ صحافی اب صرف پڑوسی نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے دوست ہیں. ہمارا کام اپنے تکمیل کو پہنچا!
اس پروگرام کے حوالے سے ہماری پچھلی رپورٹ بھی پڑھیے.