بحرین: کیا اسلام اور جمہوریت ساتھ چل سکتے ہیں؟

 کیا اسلام اور جمہوریت ساتھ چل سکتے ہیں؟ آج کل بحرینی بلاگروں میں یہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ بحرینی مصور الشیخ نے یہ موضوع ٹوئیٹر سے شروع کیا [عربی]:۔

في المجتمعات الاسلامية من الصعوبةالفصل بين ماهو سياسي وديني ولذا لن تنجح الديمقراطيةحتى لو كتبنا افضل الدساتير وقبلنا بالتناوب السلمي للسلطة

@انس الشیخ: سیاست اور مذہب کی تقسیم اسلامی معاشروں میں بہت مشکل ہے اور اس ہی لیے جمہوریت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی چاہے کتنا ہی اچھا دستور دریافت کیوں نہ کرلیا جائے۔

فئیرلیس بحرینی (fearlessbahrain) جواباً لکھتا ہے:

الديمقراطيةهي الحل و العلاج لمثل هذه المشاكل إذا تطورت القوانين سيتطور الناس بشكل طبيعي الدولة المدنية هي الخلاص لهذا الشعب

@فئیرلیس بحرینی: جمہورہت ان تمام مسائل کا حل ہے۔ اگر قانون بنائے جائیں، تو فطری طور پر لوگ بھی بہتر ہونا چاہیں گے۔ سول سوسائٹی لوگوں کا مسیحا ہے۔

بحرینی صحافی عباس بوسفان کی راَئے مختلف ہے۔ وہ الشیخ کا جواب یوں دیتے ہیں:

والله هالاستنتاج مؤلم، لكنه قد يكون تعميميا، ربما نجحت تجربة تركيا

@عباس بوسفان: یہ نتیجہ بہت تکلیف دے ہے۔ یہ ایک عمومی رائے ہے۔ شاید ترکی جمہوریت کی ایک کامیاب مثال ہے۔

الشیخ جواب دیتے ہیں:

تركيا لم توازن بين الشأن السياسي والديني والدليل ان هناك حقوق للشواذ وانا شفتهم بنفسي يتظاهرون في شارع “تقسيم” الشهير هههه

@انس الشیخ:ترکی میں مذہب اور سیاست کے درمیان توازن نہیں ہے۔ مثلاً، میں نے خود ترکی کی مشہور سڑک ‘تقسیم’ پر ہم جنس پرستوں کو اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتے دیکھا۔

احمد الحداد مزید لکھتے ہیں:

تـركيا ليست في عهد اليوم بل في زمان أتاترك // وتركيا اليوم وأردوغان الشهير أعادوها لما قبل أتتارك

@احمد الحداد:ترکی آج وہ نہیں جو اتاترک کے دور میں تھا۔ اردغان ترکی کو قبل از اتاترک دور میں لے گئے ہیں۔

جواب میں، بوسفان مزاخاً کہتے ہیں:

اعتقد ان السعودية احسن نموذج للديمقراطية والشورى وحقوق الانسان والاعلام المقتوح والتوازن بين السياسي والديني!

@عباس بوسفان:میرے خیال میں سعودی  عرب جمہورہت کی بہترین مثال ہے: شوریٰ، انسانی حقوق، آزاد صحافت، اور مذہب و سیاست کے میان توازن۔

ابو یوسف اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سیاست اور مذہب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں:

انا معك،يجب ان لا نخلط الدين والسياسة فهم لا يتفقان،فنصبح نظام قمعراطي مثل ايران،

@ابو یوسف: میں اتفاق کرتا ہوں کہ مذہب و سیاست کو آپس میں نہیں ملانا چاہیے، ایسا کرنے کی صورت میں آخر میں ایران جیسی استحصالی حکومت قائم ہوگی۔

اور آخر میں ابوکریم یہ رائے دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے نظام کو بہتر کرنا چاہیے، بجائے یہ کہ ہم مغربی جمہورہت درآمد کریں

مشكلتنا اننا نريد تطبيق النظريات الغربية على مجتمعاتنا بدل البحث عن ما يوجد لدينا وتحديثه

@ابوکریم: ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مغربی جمہورہت کو اپنے معاشرے پر نافذ کرنا چارہے ہیں۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم موجودہ نظام کو جدید بنائیں۔

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.