پشاور اسکول پر خوفناک حملے کے بعد پاکستانیوں نے تاریکی کے بجائے روشنی کا انتخاب کیا

Photo tweeted from vigil in Islamabad  by @Fmullick. "In times of darkness we come together to bring light- @P_Y_A & @khudipk light lanterns for victims of #peshawarattack"

اسلام آباد میں آرمی پبلک اسکول میں جاں بحق ہو جانے والے بچوں کی یاد میں ہونے والے وجل کی تصویع جو @Fmullick نے شیئر کی

 

پشاور میں  آرمی پبلک اسکول پرسفاکانہ حملے کے واقعے پر پڑوسی ملک  بھارت سمیت پوری دنیا صدمہ کا شکار ہوئی ،پاکستان میں  بھی اس پر دہشت اور غم و غصہ پایا  گیا.
آٹھ  گھنٹے تک 6 طالبان حملہ آوروں نے اسکول میں  کارروائیاں کیں جس میں 145 افراد مارے گئے ،مرنے والوں میں 132 بچے بھی شامل ہیں ،
پاک آرمی نے اسکول کو ریسکیو کیا  اور اسکول میں موجود افراد کو باہر نکالا ، جبکہ 6مسلح حملہ آوروں کوبھی ہلاک کردیا،اس واقعے کےبعد پاکستانی  اندھیرے میں روشنی کی تلاش کرتے رہے۔

پاکستانیون کے جذبات اور احساسات پر مبنی فیس بک اسٹیٹس اس تحریر میں ان کی اجازت کے ساتھ شامل کرررہی ہوں ،جس سے مجھے اس واقعے کے بعد ہمت ملی۔  پہلے تین اسٹیٹس ان خواتین کے ہیں جو روشنی کی راہ کے ابتدائی مسافروں میں سے ہیں۔

سول سوسائٹی کی جانب سے سانھہ پشاور کی یاد میں شمعیں روشن کرنے اور دہشتگردی نہ منظور جیسے نعروں کو سپورٹ کرنے والی اور اس تحریک کا آغاز کرنے والی کمپنی انویسٹ 2 انویسٹ کی بنیاد ڈالنے والی کلثوم لاکھانی فیس بک پر کہتی ہیں:

میر دل کل ان بچوں ،اساتذہ اور ان کے گھر والوں کا سوچ سوچ کر بھاری ہورہا تھا جو پشاو میں درندگی کا شکار ہوئےمیں جلدی سونے کے لیے لیٹ گئ لیکن میرا زہن مستقل بٹا ہوا تھا ، میرا دل چاہ رہا تھا کہ دنیا کو بند کردوں اورساتھ ہی مجھے اس پر احساس ندامت بھی ہورہا تھا
صبح اٹھنے کے بعد بھی میرا دل بھاری ہورہا تھا ، لیکن میں سوچ رہی تھی کہ اس دنیا میں بہت برائیاں مگر بہت سی اچھائیاں بھی ہیں مختلف تنظیموں کےساتھ ساتھ کام کرتے ہوئے ہر روز میں کئ اچھی باتوں کو محسوس کرتی ہوں ،، لوگ پاکستان کو بہتر بنانے کے لیے حتی الامکان کوشش کررہے ہیں پاکستان کے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کی کوشش ،خواتین اور نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی وغیر ہ جسیے معاملات کو بہتر بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ،میں نے اس مقصد کے لیے اپنے دوستوں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو دیکھا ہے جو ملک کی بہتری کے لیے بلا خوف و خطر اسٹیسٹس کو کو بھی چیلنج کررہے ہیں
جہاں تک میں سوچ رہی ہوں ہم یا تو واپس ان اندھیرے طرف لوٹ سکتے ہیں یا پھر روشنی  میں جینے کا انتخاب کرسکتے ہیں ،ان بچوں کی خدمات کے اعتراف میں جن کو  بے ہنگم طریقے سے قتل کردیا گیا اوروہ ہیرے  تاریکی  میں ہم سے چوری کرلیے گئے۔

پاکستان سافٹ وئیر ہاوس  ایسو سی ایشن  کی صدر اور سماجی کارکن جہاں آرا نے کہا کہ:

مجھے سیاسی بیانات نہیں سننے،مجھے سرنگوں پرچم نہیں دیکھنے  ،افسردہ چہرے نہیں دیکھنے،مجھے نہیں سننا کہ آپ سب نے اسمبلی میں دعا  کی ،جو کہتے ہیں کہ ہمیں انتخابات میں ووٹ دو میں ان سب کو کہنا چاہتی ہوں کہ مل کر بیٹھیں اور طے کریں جس سے یہ کئی زندگیاں جو چلی گئیں بچائی جاسکتی ہوں۔
آج میں اور میرے ساتھ بہت سے کام کرنے والے جو بیرون ملک رہتے ہیں ہم ایک دوسرے سے عہد کرتے ہیں دوبارہ اس قوم کے نوجوانوں کے لیے کام اور کوشش جاری رکھیں گے ۔
ملک میں بہت کچھ اچھا ہورہا ہے ،لیکن ہمیں یہ سمجھنے کے لیے ریت سے سر نکال کر کچھ جرات مندانہ فیصلے فوری بنیادوں  پر کرنے ہوں گے۔
اگر آپ واقعی رہنما ہیں تو ہمیں دکھائیں اپنی طاقت آج مرنے والے بچوں  کے ماووں، باپوں ،بہن  اور بھائیوں کو یقین دلائیں کہ ایسا پھر کبھی نہیں ہوگا، اس بار صرف لفظوں سے کام نہیں چلے گا ہم خالی بیانات سے زیادہ کا تقاضہ کرتے ہیں۔


پوپ ان جے کمپنی کی بنیاد ڈالنے والی صبا گل نے نیویارک میں پشاور میں مرنے والوں کی یاد میں شمع جلانے کی تقریب میں شرکت کے بعد اپنا فیس بک اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا.

 میں نے شمع روشن کی اور دعائیں کیں میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ کیا صرف یہ ہی ہے جو میں کرسکتی ہوں اس واقعے کے بعد ، ،،اس وقت زیادہ سے زیادہ میں صرف اتنا ہی کرسکتی تھی
لیکن میں یقین رکحتی ہوں کہ جس طرھ آج واشنگٹن اسکوائر پارک میں ملسمانوں ،یہودیوں اور عیسائیوں نے جمع ہوکر اطہار یکجہتی کیا ہم نے ایک روشن دنیا کی ترجمانی کی ، بڑے بچے سب ہی کی آنکھوں میں آنسو تھے  اور دل ننھے معصوموں کے غم میں رنجیدہ تھے جو اسکول گئے اور پھر کبھی اپنے گھروں میں ماں باپ ے پاس نہیں لوٹے 
ہم نے اس حادثے کے نتیجے میں اتحاد  کا مظاہرہ کیا کہ ہم ہی اس کے زمہ دار ہیں ،،اور کسی نے کہا کہ یہ ہم سب کا  مسئلہ ہے جس پر کوئی سازشی عناصر  ،کوئی وضاحتیں اور انگلیاں ایک دوسرے پر نہیں اٹھنی چاہیں ،
میری سب سے پڑی امید پوپ ان جے سے یہ ہے کہ وہ لڑکیاں ،وہ خواتین جو میرے ساتھ کام کرتی ہیں وہ اس قابل ہیں کہ اپنے بیٹوں کو تحمل ،پرداشت ،پیار اور امن کا درس اور تربیت دیں گی۔

حملے کے ایک روز بعد اسفندیار شاہیں سیان کیپیٹل کے کو مینجر ایک سماجی کارکن اور پاکستانی ایکٹیوسٹ  سرمد طارق مرحوم سے متاثر ہو کر لکھتے ہیں :

سرمد طارق کے مطابق  جینا یعنی کوشش کرنا ہے آج ان کی سالگرہ ہے ،میرا زہن مفلوج ہوگیا ہے کل ہونے والے پشاور کے حملے کے بعد، بہت سی فیس پوسٹ پرھنے کے بعد مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ یہاں کوشش کرنے والوں سے آنسو بہانے والے زیادہ ہیں
لیکن اس قابل افسوس بات کے باوجود مجھے خوشی ہے کہ میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو کوشش کرنے والوں میں سے ہیں ،جو فنڈ ریز کررہے ہیں ، رہنماووں کے احتساب کرنے میں کوشاں ہیں ،زہنی دباو سے نجات کے لیے تھیراپیز کروانے کے قدم اٹھارہے  ہیں
،جو روشنی کی  جانب دیکھ رہے ہیں اور ہار نہیں مان رہے ،کبھی ہار نہ مانیں بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں  کہ جب آپ مریں تو آپ اگلا قدم اٹھارہے ہوں نہ کہ کسی معجزے کا انتظار کررہے ہوں.

جب اس خوفناک واقعے میں مرنے والوں کی تعداد 141 تھی جو بعد میں 145 ہوگئ تھی، ایک ویب سائٹ بہت شئیر کی گئی:

Screen shot 2014-12-17 at 10.45.07 AM

 کچھ ہی گھنٹوں میں ہزاروں افراد نے مدد کے لیے سائن اپ کیا۔ میں نے اس کو پڑھا تو اس سائٹ کے بنانے والے زکی صاحب سے رابطہ کیا انہوں نے ای میل کا جواب دیا:

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کسی نے یہ آئیڈیا دیا تو میں نے اس سے فورا یہ ویب سائٹ بنا ڈالی اور اس کا رسپونس بہت اچھا آیا ،،لوگ اس کام کو ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ،اب میں اس کوشش میں ہوں کہ اس کام کو کس طرح انجام دیا جائے اگر آپ کے پاس کوئی مشورہ ہو ،راستہ ہو تو آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں
ہم چار ہزار چار سو لوگ ہیں اور یہ تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.