خوشحالی کی تلاش میں ایک ملک گنی بساؤ کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا

یہ آڑٹیکل سلویا ارجونا کی تحریر ہے جو کہ اے ای سی اہ ایس ویب سائیٹ پر گنی بساؤ کے لئے تازہ ہوا کے عنوان سے 26 اگست 2013 کو شایع ہوا۔ 

 

گنی بساؤ جو بحییثت ملک اپنے اندر بسنے والے باشندوں کی غزائی ضروریات کو پورا نہیں کر پا رہا تھا وہاں ہونے والی حالیہ سیاسی تبدیلیوں نے ملک کی کل آبادی جو کہ سولہ لاکھ ہے کے لئے رز مرہ کی زندگی میں مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ اور اسکی بڑی وجہ اس ملک میں 12 اپریل 2012 کو پیش وقوع بزیر ہونے والا ‘کو ڈاٹا’ ہے۔

کادجیا مانے جو انسانی حقوق کے حوالے سے سوشیالوجسٹ ہیں گنی بساؤ کے لوگوں کی حالت بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں:

¡Es vergonzoso, miserable y lamentable que vayamos a cumplir 40 años de independencia y vivamos en un país en el que no podemos soñar!

یہ شرمناک دکھی اور انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ ہم آزادی کے 40 سال منانے کے لئے جا رہے ہیں اور ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ہم خواب نہیں دیکھ سکتے!

 ایک ایسے ملک میں رہنا جہاں زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے کہ پینے کا صاف پانی اور گھریلو استعمال کے لئے بجلی دستیاب نہ ہو انتہائی مشکل کام ہے۔ اور ایسا اس ملک میں ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے؛ اسپتالوں میں نہ عملا موجود ہے نہ تکنیکی سامان، اسکولوں میں قابل استاد نہیں ہیں، دیہی علاقں میں شدید غزائی قلت ہے، حقوقِ نسواں کی خلاف ورزی جاری ہے، خوف کی وجہ سے آزایِ اظہار کی کمی ہے، بدعنوانی اپنے عروج پر ہے، منشیات کی اسمگلنگ، اور مواصلاتی نظام کی عدم موجودگی جیسے کئی گھمبیر مسائل کا اس ملک اور اس کے باسیوں کو سامنا ہے۔

گنی بساؤ، سینیگال اور گنی کوناکری کے درمیان واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی 186 ممالک پر مشتمل فہرست میں اس ملک کا درجہ 176 واں ہے۔ اس پر مزید یہ کہ پیدائش کے وقت متوقع عمر صرف 48 سال ہے، مجموعی قومی مصنوعات فی کس 1.042 ڈالر ہے (یعنی کل 2005 بین الاقوامی ڈالر), 88 فیصد بچے پرائیمری تعلیم بھی مکلمل نہیں کرتے، ان تمام اعداد و شمار کی بدولت ہم اس ملک میں حالاتِ زندگی کا ایک زہنی خاکہ کھینچ سکتے ہیں۔

دار الحکومت بساؤ میں حالات قدرے بہتر ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں بھی گلیاں گند سے بھری ہوئی ہیں، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر جگہ جگہ نظر آتے ہیں ہیاں تک کہ صدارتی ؐھل کے پاس بھی اس قسم کے ڈھیر نظر آئیں گے۔ اور جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے شہر مکمل اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ 

دیہی علاقوں میں تو حالات بہت کی خراب ہیں مالی حالات کی خرابی کے مالی خرابی کے زیرِ اثر خوراک خریدنا نا ممکن سا ہوتا جا رہا ہے۔ اور کاجو جو کہ ملکی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے کی قیمت میں کمی سے حالات مزید بگڑ رہے ہیں۔

One of the streets in the centre of Bissau. Photo by Silvia Arjona

دارالحکومت بساؤ کے مرکز میں واقع ایک سڑک۔ تصویر از سلویا ارجونا۔

اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کی تنظیم کے مطابق گنی بساؤ کو فی الحال ایک بڑی خوراک کی قلت کا سامنا ہے، جس  سے مک کے اندرونی علاقہ جات میں رہنے والے 260،000 لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ملک کی زرعی پیداوار مزید خراب اور سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہو رہا ہے۔

شائد اسی لئے موجودہ عبوری حکومت کے وزیر برائے بیرونی کاروبار، تعاون و کمیونٹیز جناب فرنانڈو ڈیفلین دا سلوا کے خیال میں خوراک کے حوالے سے استحکام ایک اہم سیاسی ترجیح ہونی چاہیئے۔ بساؤ کی حکومت کے محل میں واقع  اپنے بڑے دفتر سے ڈا سلوا پریشانی کے عالم میں تمام تر صورتحال واضح کی اور بین الاقوامی برادری سے مدد کی اپیل کی:

Desde que comenzamos el ciclo de castaña de cajú, hace muchos años, las personas intercambiaban cajú con arroz. Así, un kilo de arroz era igual a un kilo de cajú. Hoy, por el contrario, con un kilo de arroz compras tres de castaña de cajú, lo que significa que hay un deterioro del cambio, un problema serio para el que necesitamos apoyo

کئی سال پہلے ہم نے کاجو کے بدلے چاول کا تبادلہ شروع کیا۔ جس کے تحت ایک کلو چاول ایک کلو کاجو کے برابر تھے۔ آج، اس کے برعکس، چاول ایک کلو کے ساتھ آپ، کاجو کے تین کلو خرید سکتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زرمبادلہ کی شرح میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ جو ایک سنگین مسئلہ ہے اور ہمیں اس حوالے سے مدد درکار ہے۔

کاجو، جو کہ 200،000 ٹن بر آمد کر دیا جاتا ہے، اور دیگر ملکی پیداواروں کی پراسیسنگ کرنے والی کمپنیوں کی کمی بھی گنی بساؤ کی محدود ترقی کی بری وجہ ہے۔ ڈا سلوا پراسیسنگ کی اہمیت پر غور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

Tenemos que transformar nuestros productos agrícolas. Sin eso, no tendremos buenas carreteras ni buenas escuelas ni buenos centros hospitalarios ni buenas instituciones públicas. Es urgente cambiar y transformar el modelo económico ya que el que tenemos crea pobreza en lugar de combatirla. Y no es muy difícil. Transformando eso, en cuatro o cinco años Guinea-Bissau podría reducir bastante los índices de pobreza y crear casi 20.000 puestos de trabajo. ¡Y todo sin utilizar una tecnología sofisticada ni complicada!

ہمیں اپنی زرعی مصنوعات کو پراسیس کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسکے بغیر ہمارے لئے اچھی سڑکوں، اچھے اسکولوں، اچھے اسپتال، اور دیگر اچھے قومی اداروں کا قیام ممکن نہیں ہو سکتا۔ اقتصادی ماڈل کی فوری تبدیلی درکار ہے کیونکہ موجودہ ماڈل کے زیرِ اثر غربت میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر بہتر اقتصادی پالیسی اپنائی جائے تع گنی بساؤ پانچھ سال کے عرصہ میں غربت کی سطح میں نمایاں کمی کر سکتا ہے نا صرف یہ بلکہ 20،000 نوکریاں بھی پیدا کی جا سکیں گی۔ یہ سب  نفیس یا پیچیدہ ٹیکنالوجی کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے۔ 

انہیں اس بات کا یقین ہے کہ یہی ایک تبدیلی ہے جسکی ملک کو پیروی کرنی چاہیئے۔ جس کے نتیجے میں انسانی، اقتصادی، اور معاشرتی ترقی کی وہ سطح حاصل کی جا سکے گی جو اس ملک میں بسنے والو کا میعار زندگی بہتر بنائے گی۔ 

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.