بحرین: دو بچوں کی حراست میں توسیع کے بعد عدالت میں افراتفری

بحرین کے ایک جج نے آتش زنی اور غیر قانونی اجتماع کے جرم 12 اور 13 سال کے دو بچوں کی “مرکز بہبود اطفال” میں حراست میں سات روز کی مزید توسیع کر دی ہے۔ یہ گرفتاری کے بعد ان کی تیسری توسیع ہے اور اس کا مطلب ہوگا کہ دونوں بچے اگلی سماعت تک 28 دن حوالات میں گزار چکے ہوں گے۔

مرزا ابو الشہیدمرزا (12 سال)، محسن محمد صادق العرب (13) اور محمد عباس المولانی (16) کو 7 اگست 2012ء کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب الوفاق اور الایام اخبارات [عربی] کے مطابق گشت پر موجود پولیس نے مبینہ طور پر انہیں قصبہ حماد میں ٹائر جلاتے ہوئے دیکھا، اخبارات نے یہ خبر مشتبہ افراد کے نام ظاہر کیے بغیر پیش کی تھی۔ بحرین کے ضابطہ تعزیرات کے تحت المولانی بچہ شمار نہیں ہوا ہے اور اسے عام قید خانے میں زیر حراست رکھا گیا۔

مرزا عبد الشہید (12) اور محسن العرب (13) کمرہ عدالت میں۔ منامہ، بحرین۔ تصویر از ٹوئٹ پک صارف اور ان کی وکیل @Duaa_al3mm

مرزا عبد الشہید (12) اور محسن العرب (13) کمرہ عدالت میں۔ منامہ، بحرین۔ تصویر از ٹوئٹ پک صارف اور ان کی وکیل @Duaa_al3mm

جب تحویل میں توسیع کرنے کی خبر منتظر والدین اور اہل خانہ کو سنائی گئی تو اس موقع پر کمرہ عدالت میں متعدد ٹوئٹر صارفین موجود تھے جنہوں نے کہا کہ کئی افراد اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے، جن میں 12 سالہ مرزا عبد الشہید کی والدہ بھی شامل تھیں، جو بے ہوش ہو گئیں۔ زہرہ الشیخ، جو اپنی بہن زینب الشیخ کے مقدمے کے لیے کمرۂ عدالت میں موجود تھیں، نے ٹوئٹ کیا [عربی]:

ما زالت كلمات أم الطفل المعتقل #ميرزا_عبدالشهيد ترن في أذني ببكائها وتهذي :لم أشتري له ثياب العيد والمدارس بتفتح وما أخذت له ثياب المدرسة 🙁
@ZAlshaikh_BH: مرزا عبد الشہید کی والدہ کے الفاظ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں، وہ ہذیانی کیفیت میں تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ اس نے بچے کے لیے عید کے کپڑے نہیں خریدے اب جلد اسکول کھل جائیں گے اور اس کے لیے بھی کپڑے نہیں خریدے۔

پھر الشیخ نے تصاویر ٹوئٹ کیں جس میں مرزا اشک بھری آنکھوں کے ساتھ جدا کیے جانے سے قبل اپنی بے ہوش ماں کو دلاسہ دینے کوشش کر رہا تھا [عربی]۔

أين القلوب الرحيمة ؟ أدميت قلوبنا وهم يجرون الطفل #ميرزا_عبدالشهيد وهو يأبى أن يترك والدته بعد أن سقطت مغشيا عليها

@ZAlshaikh_BH: ہمدرد دل کہاں ہیں؟ ہمارے دل خون کے آنسو روئے جب انہوں نے مرزا کو اپنی بے ہوش ماں سے جدا کیا۔
مرزا عبد الشہید کو اس کی بے ہوش والدہ سے جدا کر دیا گیا۔ تصویر از ٹوئٹ پک صارف @ZAlShaikh_BH

مرزا عبد الشہید کو اس کی بے ہوش والدہ سے جدا کر دیا گیا۔ تصویر از ٹوئٹ پک صارف @ZAlShaikh_BH

ان تینوں بچوں کی مستقل حراست، خصوصاً سرکاری وکیل کی جانب سے 20 اگست 2012ء کو محرق میں پولیس کے ساتھ تصادم میں زخمی ہونے والے 16 سالہ حسام الحداد کے معاملے میں گرفتار ہونے والے افسر کی رہائی [عربی] کے بعد، مقامی ٹوئٹر دنیا کے لیے ایک زبردست صدمے کی خبر بن کر آئی۔

معادلة لا أفهمها أن يخلى سبيل متهما بالقتل العمد، بينما يتم التحفظ على طفل في 12 من عمره!! فأينها حماية المجتمع في هكذا معادلة!!
@AMJAD_LAWYER:یہ مساوات مجھے سمجھ نہیں آ سکتی! کوئی کس طرح قتل کے ملزم کو چھوڑ سکتا ہے جبکہ ایک 12 سالہ بچہ بدستور حراست میں ہے۔ کیا تم اس طرح ہمارے معاشرے کو تحفظ دیتے ہو؟

الوفاق قومی اسلامی انجمن نے ایک بیان جاری کیا جس میں مرزا عبد الشہید کو “دنیا کا کم عمر ترین سیاسی قیدی” قرار دیا کیونکہ ملزمان کے خلاف الزامات “سیاسی” نوعیت کے ہیں۔

حال ہی میں، عید الفطر کے موقع پر، الوفاق اور دیگر مخالف انجمنوں نے ایک آن لائن مہم شروع کی جس کا نعرہ ہے “بچوں کے بغیر ایک عید” جس میں “قانونی عمر سے کم 90 سے زائد بچوں کی ان الزامات میں بالغان کے لیے جیلوں میں حراست کو اجاگر کیا گیا جو ان کی عمر کے مطابق نہیں ہیں۔” بحرین صرف 15 سال سے کم عمر افراد کو بچہ تصور کرتا ہے۔

اس سے زیادہ عمر کے قانون توڑنے کے مرتکب بچوں کو اس صورت میں جیل بھیجا جاتا ہے کہ جج انہیں کیے گئے جرم کے قابل سمجھے۔ اخبار الخلیج کے مطابق اس عمر میں تبدیلی کر کے اسے 18 سال کرنے کا بل شوری قانون ساز مجلس نے مئی 2011ء میں رد کر دیا تھا [عربی]۔

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.